پرائیویٹ سکول مافیا

یہ پرائیویٹ سکولوں والے سدا کے کمینے ہیں ان سے زیادہ دولت کی ہوس کس میں ہوگی۔ اپنے سٹاف کا استحصال کرتے انہیں ذرا بھی شرم نہیں آتی اتنی ڈھٹائی ہے کہ حد نہیں۔ بچوں سے لوٹ لوٹ کر ان چھ مہینوں میں انہوں نے اپنے اکاؤنٹ بھرے ہیں۔ اپنی دولت کی ہوس کو پورا کیا ہے۔ اور ٹیچرز کو پھوٹی کوڑی نہیں دی اور اگر آج ان سے جا کر پوچھ لو تو کہیں گے کہ فاقوں مر رہے ہیں۔ ان کے پاس کھانے کو مشکل سے پورا ہوتاہے۔ اور جب ٹیچرز کو بلایا تو آدھی سے کم کو بلا کر ان پر چار گنا بوجھ ڈال دیا۔ ان کا یہ لالچ کبھی ختم ہی نہیں ہوتا۔ اور جو آدھی ہیی ان کا کیا۔

ہمارے معاشرے میں جس کو موقع ملتا ہے وہ چاہتا ہے لوٹ کر کھا جاؤں اگر انہیں امید ہو کہ انسان کی بوٹیاں نوچنے پر بھی پیسے ملیں گے تو یہ اس سے بھی گریز نہیں کریں گے۔ خدا خوفی تو بھول ہی گئے ہیں انسانیت یا انسانی ہمدردی تو چھو کر نہیں گزری۔ چار پیسے آجائیں تو ان کی اکڑی ہوئی گردن میں لوہا فٹ ہو جاتا ہے۔ سٹاف کو تو جیسے کیڑے مکوڑے سمجھتے ہیں۔ اگر کوئی احتجاج کرتا بھی ہے ان کے خلاف تو کہتے ہیں چھوڑ جاؤ ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔
میڑک پاس لوگ سکول کھول کر سمجھتے ہیں کہ وہ کہیں کے نواب بن گئے ہیں پہلے طور طریقے تو سیکھ لو سکول چلانے کے ایمپلائز سے برتاؤ کے۔  انسانیت تو سیکھ کے آؤ پہلے۔

یہ مافیاز لوگوں کو لوٹ کر کھا جائیں گے لیکن ان کے جہنم پھر بھی نہیں بھرتے۔ لوگوں کو لوٹنے کا ایک نظام بنایا ہوا ہے بس حرام کماتے جاؤ اور آگ اکٹھی کرتے جاؤ۔ بزنس ایتھکس بھی ہوتی ہیں جن کو جاننا بہت ضروری ہے۔

فاطمہ رزاق

Leave a comment

Design a site like this with WordPress.com
Get started